نیا غزہ

وقت ختم ہو رہا ہے
تو تم اپنی ماں کی کوکھ میں گھسٹتے نہ رہو
میرے ننھے بیٹے جلدی پہنچو
اسلیے نہیں کہ میں تمہارے لیے تڑپ رہا ہوں
بلکہ آس لیے کہ جنگ چنگھاڑ رہی ہے
مجھے ڈر ہے کہ تم اپنے وطن کو ویسا نہیں دیکھ پائو گے
جیسا کہ میں چاہتا ہوں کہ تم دیکھو۔

۔۔۔

تمہارا وطن وہ زمین
یا سمندر نہیں جس نے ہماری تقدیر کی پیش بینی کی اور مرگیا:
یہ تمہارے ہموطن ہیں۔
آؤ اور اسے جان لو
اس سے پہلے کہ بم اس کا چہرہ مسخ کر دیں
اور میں اس کے بچے کچے ٹکڑوں کو
جمع کرنے کے لیے مجبور ہو جائوں
تمہیں بتانے کے لیے کہ وہ جو گزر گئے
خوبصورت اور معصوم تھے۔
کہ ان کے بچے تھے بالکل تمہارے جیسے
جنہیں انہوں نے  مردوں کے سرد خانوں سے بچایا
ہر حملے کی ذد سے،جیون کی ڈورپر
یتیموں کی طرح رسی کودنے کیلی

 

اگر تمہیں دیر ہوگئی تو شاید تم میری بات کا یقین نہ کرو
اور اس بات پر یقین کرلو کہ یہ بغیر قوم کی زمین تھی
اور یہ کہ ہم یہاں کبھی تھے ہی نہیں
دو بار جلاوطنی اور پھر ہم نے اپنی
پچھتر سالہ تقدیر کے خلاف بغاوت کردی
ایک دفعہ جب یہ تقدیر سراسر بگڑ گئی
اور امید سرمئی ہو گئی۔

۔۔۔

بوجھ بہت بھاری ہے
اتنا کہ تم برداشت نہ کر پائو
میں جانتا ہوں مجھے معاف کرنا کہ میں تمہیں جنم دیتے ہوئے
ایک ہرنی کی طرح لکڑبگھوں سے خوفزدہ ہوں کہ
جو کمیں میں منتظر تاک میں ہیں
کہ میری پناہ گاہ پر عقب سے حملہ کریں۔
چلو جلدی آئو اور بھاگو جتنی دور تک تم بھاگ سکتے ہو
تاکہ پچھتاوا مجھے تہس نہس نہ کر ڈالے۔

۔۔۔

کل رات مایوسی نے مجھے تھکا مارا
میں نے کہا، خاموش
اس کا اس سے کیا واسطہ؟
میرا ننھا منا، نرم ہوا کا بچہ
طوفان کا اس سے کیا واسطہ؟
لیکن آج میں ایک تازہ خبر لیے
واپس آنے پر مجبور ہو گیا ہوں۔
انہوں نے بیپٹسٹ ہسپتال پر بمباری کردی
پانچ سو ہلاک ہونے والوں میں ایک بچہ تھا
جو اپنے بھائی کو بلا رہا تھا
جسکا آدھا سر کھلی آنکھوں سمیت اڑ گیا تھا۔
“میرے بھائی! کیا تم مجھے دیکھ سکتے ہو؟”

وہ اسے نہیں دیکھتا بالکل اس دیوانی دنیا کی طرح
جس نے دو گھنٹے مذمت کی
اور پھر اسے اور اس کے بھائی کو بھول کر سوگئی۔

۔۔۔

اب میں تمہیں کیا بتائوں؟
تباہی اور آفت دو بہنیں ہیں
دونوں گرسنہ اور مشتعل
مجھ پر حملہ آور ہوتی ہیں
جب تک کہ میرے لب کپکپانے نہیں لگتے
اور ان سے لاش کے تمام ممکن ہم معنی الفاظ ٹپکنے نہیں لگتے۔
زمانہء جنگ میں کسی شاعر پر انحصار مت کرو
وہ ایک کچھوے جتنا سست ہوگا
ایک خرگوش کی مانند بھاگتے
قتلِ عام کے مقابل دوڑ کی ناکام کوشش میں مبتلا۔
کچھوا رینگتا ہے
اور خرگوش ایک جرم سے دوسرے جرم تک
چھلانگیں مارتا پہنچ جاتا ہے
اورتھوڈوکس چرچ تک جس پر بمباری ہوئی ہے
خدا کی نظروں کے سامنے
جو ابھی ایک مسجد سے لوٹا ہے
جسے انہوں نے نشانہ بنا کر زمیں بوس کر ڈالا
مسیح کی جائے امان میں۔
کہاں ہے ہمارا محافظ،
جبکہ ہمارا باپ جو آسمان میں ہوتا ہے
دراصل ہوائی جہاز میں ہے
بالکل اکیلا اور کسی ساتھی کے بغیر
سوائے اس کے جو جہاز میں ہے
جو ہم پر بم برسانے آیا ہے
مگر اس کا مقصد ہماری سرنگونی ہے۔
میرے بچے، صلیب پر
اب تمام پیغمبروں کے لیے گنجائش ہے
خدا سب کچھ جانتا ہے
مگر تم اور تمہاری طرح دوسرے ان جنے بچوں کو
ابھی آگہی تک سفر کرنا ہے۔

شاعر: مروان مخول
ترجمہ: تنویر انج


Urdu translation of Marwan Makhoul’s poem, New Gaza, by Tanveer Anjum

Article by: